بسم اللہ الرحمن الرحیم
میڈیا پر پاکستان میں جاری کاروائیوں کے اعداد وشمار بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں اور پاکستانی ہوشیار اور دانا میڈیا ان کاروائیوں کی روک تھام کے لئے نت نئے مشورے تراشنے میں مصروف ہے کہ اب کی بار یہ تدبیر اختیار کی جائے،فلاں ایسا کرتا تو یہ مسئلہ یوں قابو ہوجاتا۔۔۔وغیرہاعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کاروائیوں کا آغاز ۲۰۰۱ء کے بعد ہوا ،سال ۲۰۰۴ءتک اس میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ۲۰۰۷ء کے بعد ان کاروائیوں میں واضح طور پر اضافہ ہوا اور یہ مسئلہ ایک چیلنج کی شکل اختیار کرگیا۔۔۔۔۔اور اب ۲۰۱۳ ،۲۰۱۴ ءمیں یہ کاروائیاں پورےعروج پر پہنچ چکی ہیں،صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بدامنی کی کاروائیوں میں عراق اور افغانستان جیسے ملکوں سے بھی بازی لے گیا ہےاوردنیا میں پہلی نمبر پر آگیا ہے۔۔۔۔
اس صورتحال سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔۔۔؟؟
ایک بھرپور فوجی آپریشن کیا جائے۔۔۔؟ سخت ترین قوانین بنائے جائیں ۔۔۔۔؟قومی سلامتی پالیسی بنائی جائے۔۔۔؟سریع الحرکت (ایس ایس جی سے بھی تیز اور پھرتیلی)فورس تشکیل دیجائے۔۔۔؟مدارس دہشتگردوں کی نرسریاں ہیں ، ان پر پابندی لگائی جائے۔۔۔؟
پاکستان میں ویسے ہی بزرجمہروں کی کوئی کمی نہیں ہے،پھر ایسے اعداد وشمار دیکھ کر ہر سیکولر کا دماغ چلنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔اور اس کے دماغ میں اسلام پسندوں کو مٹانے کے نت نئے حربے ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔اس سے قطع نظر کہ یہ حربہ قابل عمل بھی ہے کہ یا نہیں وہ اس کو بڑی ڈھٹائی سے بیان کرتے اور اس پر عمل کرنے پر زور دیتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔
جناب الطاف حسین اس پورےمعاملے کی ایک اعلی مثال ہیں۔۔۔ہر صبح شیطان اس کو علماء اور مجاہدین کے خلاف ایک نیا اقدام یاد دلاتا ہے اور وہ لندن سے آن لائن اپنے نادان کارکنوں کو وہ سبق ازبرکراتا رہتا ہے ۔۔۔ہمارے ملک کی میڈیا بھی ایسے ڈھکوسلوں کوارسطو کے فلسفے سے بڑھ کر اہمیت دیتا ہے تو ان کی ہمت اور بھی بندھ جاتی ہے کہ شاید اصل نسخہ وہی ہے جو میں تجویز کرر ہا ہوں۔۔۔۔
کیا ان اقدامات سے یہ مسئلہ کنٹرول ہو جا ئیگا۔۔۔؟؟کیا ایسا کوئی قدم پہلی بار اٹھا یا جائیگا۔۔۔؟؟مریض عشق پر رحمت خدا کی * مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔۔۔ان اقدامات میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو نہ آزمایا گیا ہو ۔۔۔سخت ترین فوجی آپریشنز، ملک بھر سے اندھا دھند گرفتاریاں ،مدارس کی رجسٹریشن۔۔انسداد دہشتگردی عدالتوں کا قیام اور فورتھ شیڈول جیسے کالے قوانین سمیت وہ کونسے اقدامات ہیں جو ان کاروائیوں کی روک تھام کے لئے نہ اٹھا ئے گئے ہوں۔۔۔لیکن کاروائیوں کی شرح میں روز افزوں اضافہ ہی ریکارڈ کیا جارہا ہے۔۔۔
آخر یہ کاروائیاں کیسے تھم جائیں گی۔۔۔؟ وہ کونسا آپشن ہے جسے ابھی تک نہیں اپنا یا گیا۔۔۔۔؟
اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس پر ہمیشہ انہی لو گوں کا تسلط رہا جن کو مغرب کی آشیر باد حاصل رہی ۔۔۔امریکہ اور مغربی آقاؤں کی ہر خواہش پر انہوں نے اسلام اور ملک کے مفاد ات کو قربان کرنےمیں ذرا تامل نہیں کیا ۔۔۔
۲۰۰۱ ء میں جب امریکہ امارت اسلامی افغانستان پر حملہ آور ہوا تب ہمارے نامور جرنیل انکے آگے ڈھیر ہوئے۔۔۔اور ایک خالص اسلامی حکومت کے خلاف بغیر کسی وجہ کے امریکہ اور نیٹو اتحاد کے ساتھی بنے اور امارت اسلامی کو ملیامیٹ کر دیا،بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ہزاروں عرب مہاجرین اور افغانوں کو ان بدبختوں نے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا ۔۔۔مہاجرین امریکی حملے سے محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داخل ہوئے۔۔۔انہوں نے انکے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا ،ہزاروں لوگ شہید کر دیے گئے،بے شمار گرفتار ہو کر آئی ایس آئی کی سیلوں میں ہمیشہ کے لئے گم ہو گئے۔۔۔لاکھوں بے گھر اور بے آسرا ہو گئے۔۔۔۔مرتے کیا نہ کرتے غیور قبائل پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔۔۔اور پاکستان میں اپنی بقا اور اسلام کی دفاع کا جنگ شروع کر دیا ۔۔۔یہاں سے اس جنگ کا آغاز ہوا۔۔۔۔
چونکہ اس جنگ کی بنیادی وجہ امارت اسلامی کے خلاف امریکہ کی کھلی حمایت اور امریکی جنگ میں ریاست کی مکمل معاونت اور شرکت تھی۔۔۔لہذا ملک میں وقفے وقفے سے عرب مجاہدین کی گرفتاری اور بہت سے مقامات پر انکی مظلومانہ شہادت کے واقعات اس جنگ کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔۔۔انتقام کے جذبے سے سرشارہونہار اس میں بھرپور کردارادا کرنے لگے۔۔۔ ۲۰۰۳،۲۰۰۴ تک اس مبارک جنگ نے قوت پکڑلی۔۔۔ناعاقبت اندیش فوجی جرنیلوں کے سخت فوجی آپریشن کے فیصلوں نے اس جنگ کو بھر پور فائدہ پہونچایا۔۔۔کیونکہ مجاہدین قبائل کو یہ بات سمجھانے میں باآسانی کامیاب ہو گئے کہ یہ فوج مسلمانوں کی دشمن اورامریکہ کی وفادار اور کرایہ دار ہے۔۔۔۔اوروہ جنگ جو وانا جنوبی وزیرستان تک محدود تھی بڑھتی ہوئی سات ایجنسیوں میں پھیل گئی۔۔۔
ء۲۰۰۵،۲۰۰۶ ءمیں وانا اور باجوڑ وغیرہ میں امریکی ڈرون حملوں کو اپنے حملے قرار دینے کی پالیسی نےمجاہدین کی عوامی حمایت میں زبردست اضافہ کیا اور پاکستان کی اسلام پسند عوام پر حکومت کی اسلام دشمنی کھل کر واضح ہو گئی۔۔۔
۲۰۰۷ءمیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں معصوم طلبہ اور طالبات کے خلاف پاکستانی ریاست کے ظالمانہ آپریشن نے اس جنگ کو ملک کے طول و عرض میں پھیلادیا۔۔۔وہ جنگ جو ابھی تک صرف قبائل میں دفاع کی حد تک لڑی جارہی تھی اس کو نفاذ شریعت کاعالی اور پاکیزہ نظریہ فراہم ہوا۔۔۔پاکستان کے مسلمان اچھی طرح جان گئے کہ اصل مسئلہ امریکہ کی دوستی سے بھی بڑھ کر وہ نظام ہےجو ہمارے اوپر قیام پاکستان کے وقت سے ہی مسلط کر دیا گیا ہے۔۔۔اور اب وہ شریعت یا شہادت کے جذبے سے سرشار ہو کر لڑنے لگے۔۔۔نظریاتی بنیادوں پر لڑی جانے والی جنگ بہت مؤثر ثابت ہوئی۔۔ کیونکہ اس کو پاکستان میں ہر علاقے اور ہر طبقے کے لوگوں میں مقبولیت مل گئی ۔۔۔وہ لوگ بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے جن کو اس جنگ میں بظاہر کوئی نقصان نہیں پہونچا تھا۔۔۔۔
اور اب الحمد للہ پاکستان کے طول و عرض میں پاکستانی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نظریاتی طور پر تحریک طالبان سے منسلک ہو چکی ہے۔۔۔اور اس میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔نتیجتاً سال ء۲۰۱۳، ۲۰۱۴ء میں مجاہدین کی کاروائیوں کی صلاحیت میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔۔۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس ملک کے حکمران ان کاروائیوں کی روک تھام میں مخلص ہے۔۔۔تو اس کو اس جنگ کے بنیادی اسبا ب پر توجہ دینا ہو گا ، جب تک ان اسباب کا خاتمہ نہیں ہو گا اورلندن میں بیٹھے الطاف حسین جیسے سیانوں کے مشوروں پر عمل ہوتا رہے گا تو اس جنگ میں روز بروز اضافہ تو ہوگا۔۔۔ لیکن اس میں کسی قسم کی کمی دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوتا رہے گا۔۔۔۔
اس جنگ کے بنیادی اسباب:
– امریکہ اور نیٹو کا فرنٹ لائن اتحادی بننا
– امارت اسلامی کے سقوط میں بھر پور کردار ادا کرنا
– چند ڈالروں کے عوض عرب مجاہدین کی بہت بڑی تعداد میں گرفتاری اور امریکہ کو حوالگی
– اپنے ہی ملک کے غیرت مند مسلمانوں کے خلاف بد ترین فوجی آپریشنز
– ملک کے طول و عرض میں مجاہدین کی آڑ میں بےگناہ لوگوں کی بے دریغ گرفتاریاں
– لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف پوری ریاستی قوت کا استعمال
– گرفتار ساتھیوں کی مسلسل مسخ شدہ لاشیں پھینکنا
– دہشت گردی کے نام پر مدارس اور دین دار طبقے کے خلاف شر انگیز میڈیا مہم
– اسلام دشمن عناصر کو کھلی چھٹی دینا کہ وہ جو چاہیں کہتے اور کرتے پھریں
– ملک کے ایوانوں سمیت ہر سطح پر اسلام اور شریعت کا کھلا مذاق
یہ وہ چیدہ چیدہ اسباب ہیں جن کو کوئی بھی عقلمند انسان باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ انہی وجوہات کی بنا پر یہ جنگ آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی اور زور دار کاروائیاں ہیں کہ ہر نئے اقدام کو بے کار کئے دیتی ہیں۔۔۔لہذا ہم پاکستان کے حکمرانوں اور پاکستانی میڈیا سے یہ عرض کرتےہیں کہ اعداد و شمار ضرور جمع کریں لیکن اس کے ساتھ ہی ان اسباب کو بیان کرنے میں بخل نہ کریں جوان کاروائیوں کا اصل سبب ہیں، اگر ان اسباب کے خاتمے کی طرف توجہ دی جائے تو ان کاروائیوں کی شرح میں حیرت انگیز کمی واقع ہو سکتی ہے۔۔۔جہاں تک فوجی آپریشن کی بات ہے تو ہم اس کے شاندار نتیجے کے لئےتیار بیٹھے ہیں۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ اس آپریشن میں طالبان مجاہدین کا نقصان نہایت کم اور قبائلی بے گناہ عوام کا بے پناہ نقصان ہو گا۔۔یہ نقصان جن لوگوں کے ہاتھوں ہوگا وہ اس خوش فہمی میں پھر ہرگز نہ رہیں کہ غیور قبائل آپ کو جواب میں پھولوں کا ہار پہنائیں گے۔۔۔۔۔
شاہد اللہ شاہد
مرکزی ترجمان تحریک طالبان
الجمعة 28 ربيع الثاني 1435 هـ
28/02/2014الله أكبر
{وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ}
مؤسسة عمر للإعلام
ادارہ عمر برائے نشرواشاعت
حركة طالبان باكستان
تحریکِ طالبان پاکستان
المصدر : (مركز صدى الجهاد للإعلام)
مآخذ : (صدى الجہاد میڈیا سینٹر)
الجبهة الإعلامية الإسلامية العالمية
عالمی اسلامی میڈیا محاذ
رَصدٌ لأخبَار المُجَاهدِين وَ تَحرِيضٌ للمُؤمِنين
مجاہدین کی خبروں کی مانیٹرنگ کرنا اورمؤمنین کو ترغیب دلان
__________
To inquire about a translation for this statement for a fee email: [email protected]